Saturday 17 October 2020

دوپہر

 درپیش ہیں کئی دوپہریں مجھے

جس میں تیرا سایہ مجھ پر نہیں

اور تیری باتوں میں میری بات نہیں
تیری یادوں میں میری اب کوئی یاد نہیں
میں موج تھا تو تھا دریا

آج بھی ضبط کا بند ٹوٹا تو نہیں
ہم ڈھونڈ لاتے کوئی تجھ سا

پر اس زمیں پر کوئی تجھ سا ہے ہی نہیں
کیسی رات ہے اتری اذن
جس کی کوئی صبح نہیں

Thursday 2 July 2020

پرانے گھر

ہمسائے میں جب کوئی پرانا گھر بکتا ہے
دل دکھتا ہے
توڑنے والوں کو کیا معلوم
کہ اس گھر میں صرف لوگ ہی نہیں بستے تھے
اس گھر میں نہ جانے کتنی یادوں کے رستے تھے
باہر کی کھڑکی میں پہلے اک بیوی اپنے خاوند کا
پھر اک ماں اپنے بیٹے کا انتظار کرتی تھی
ہر بارش پر وہ پکوڑے، سموسے تلتی تھی
یہاں اسی گھر میں کسی نے پہلی دفعہ کسی کو چاہا تھا
کسی کا بچپن انہی درودیوار میں گزرا تھا
کسی کا دل ٹوٹ کر اسی گھر میں جڑا تھا
دنیا کے سب سے خوبصورت پھول اس گھر کے باغیچے میں اگتے تھے
دنیا کے سب سے رسیلے پھل اس گھر کے پیڑوں پر لگتے تھے
جانے والوں نے سامان تو سمیٹ لیا تھا
پر خود کو یہاں چھوڑے جاتے تھے

Wednesday 8 April 2020

Roads

Roads somewhere
are like the roads everywhere
the ones that take you to your loved ones
are the same who take you away from them
they are like us
stagnant but moving
moving but stagnant
deep down we all know
there would be a turn
there would be a bump
but there will always be a story to tell
a moment to revere
but how much the journey tires you
you will always have to be somewhere
sometimes no road can take you there
but for all the other times
there is a road somewhere
like the roads everywhere

Thursday 19 March 2020

Quarantined


I have to be with me
A company that many detest including me
Compelled, forced and reduced
Many new secrets
Many new reasons to hate myself
What I have become?
Someone I do not remember meeting ever
Thought the virus was outside somewhere
Never knew it was me all along
This self reflection
This exploring of me is so frightening
Those thousands of deaths look nothing
This virus will only kill me
But me will not let me live

Friday 14 February 2020

اس محبت کی یاد میں

اس محبت کی یاد میں
جو محبت ہم سے کبھی ہو نہ سکی
اقرار کی کبھی توفیق نہ ہوئی
وہ بات جو ہم سے کبھی کہی نہ جاسکی
اس کے نہ ملنے کا دکھ تو ہے
پر شکایت کبھی لبوں پر نہ آسکی
کاش ہم دنیا کے مزاجوں میں رنگ جاتے
پر صد افسوس کہ یہ خواہش بھی ہمیں تیرے قریب نہ لا سکی
ادھورے ادھ لکھے خط جو تیرے نام تھے
مصیبت یہ تھی کہ کہ لفظ میرے خاموش تھے
اور قاصد کی زبان تجھ سے کچھ کہنے کی تاب نہ لا سکی
ہمیں فراق کی کچھ ایسی عادت ہوئی ہے اب
کہ وصل کی امید بھی اس دل نامراد میں جگہ نہ پا سکی
ہم آج بھی تیرے شہر میں بستے ہیں
روز انہی رستوں پر چلتے ہیں
تو نہیں تیری یاد سے ہم یاری رکھتے ہیں
اصلیت یہ ہے کہ تو ہوتی یا کہ تیری یاد ہے
زندگی کبھی ہمیں سنوار نہ سکی

Wednesday 1 January 2020

کوئی خط لکھ مجھے


کوئی خط لکھ مجھے
تاکہ میں اسے سنبھال رکھوں
اپنے بٹوے کے کسی خانے میں
یا پھر کسی کوٹ کی اندر کی جیب میں
کہ جب تیری یاد سے بے حال ہو جاوں
تو ان لفظوں کو چھو کر
تیرا لمس محسوس کر سکوں
تیری تصویر بنا سکوں
تیرے بالوں میں کنگھی کر سکوں
اور پھر جب مروں
تو میرے ترکے میں تیرا کچھ تو ہو
کوئی خط لکھ مجھے