درپیش ہیں کئی دوپہریں مجھے
جس میں تیرا سایہ مجھ پر نہیں
اور تیری باتوں میں میری بات نہیں
تیری یادوں میں میری اب کوئی یاد نہیں
میں موج تھا تو تھا دریا
آج بھی ضبط کا بند ٹوٹا تو نہیں
ہم ڈھونڈ لاتے کوئی تجھ سا
پر اس زمیں پر کوئی تجھ سا ہے ہی نہیں
کیسی رات ہے اتری اذن
جس کی کوئی صبح نہیں