Friday 14 February 2020

اس محبت کی یاد میں

اس محبت کی یاد میں
جو محبت ہم سے کبھی ہو نہ سکی
اقرار کی کبھی توفیق نہ ہوئی
وہ بات جو ہم سے کبھی کہی نہ جاسکی
اس کے نہ ملنے کا دکھ تو ہے
پر شکایت کبھی لبوں پر نہ آسکی
کاش ہم دنیا کے مزاجوں میں رنگ جاتے
پر صد افسوس کہ یہ خواہش بھی ہمیں تیرے قریب نہ لا سکی
ادھورے ادھ لکھے خط جو تیرے نام تھے
مصیبت یہ تھی کہ کہ لفظ میرے خاموش تھے
اور قاصد کی زبان تجھ سے کچھ کہنے کی تاب نہ لا سکی
ہمیں فراق کی کچھ ایسی عادت ہوئی ہے اب
کہ وصل کی امید بھی اس دل نامراد میں جگہ نہ پا سکی
ہم آج بھی تیرے شہر میں بستے ہیں
روز انہی رستوں پر چلتے ہیں
تو نہیں تیری یاد سے ہم یاری رکھتے ہیں
اصلیت یہ ہے کہ تو ہوتی یا کہ تیری یاد ہے
زندگی کبھی ہمیں سنوار نہ سکی