ہمسائے میں جب کوئی پرانا گھر بکتا ہے
دل دکھتا ہے
توڑنے والوں کو کیا معلوم
کہ اس گھر میں صرف لوگ ہی نہیں بستے تھے
اس گھر میں نہ جانے کتنی یادوں کے رستے تھے
باہر کی کھڑکی میں پہلے اک بیوی اپنے خاوند کا
پھر اک ماں اپنے بیٹے کا انتظار کرتی تھی
ہر بارش پر وہ پکوڑے، سموسے تلتی تھی
یہاں اسی گھر میں کسی نے پہلی دفعہ کسی کو چاہا تھا
کسی کا بچپن انہی درودیوار میں گزرا تھا
کسی کا دل ٹوٹ کر اسی گھر میں جڑا تھا
دنیا کے سب سے خوبصورت پھول اس گھر کے باغیچے میں اگتے تھے
دنیا کے سب سے رسیلے پھل اس گھر کے پیڑوں پر لگتے تھے
جانے والوں نے سامان تو سمیٹ لیا تھا
پر خود کو یہاں چھوڑے جاتے تھے